Sab
یہ ٹی ٹو ایف بننے سے بہت پہلے کی بات ہے جب ہم پاکستان سے باہر ایک سفر میں بھی ہم ساتھ رہے تھے۔نزہت اور زہیر قدوائی کی بیٹی راگنی بھی اس سفر میں ہمارے ساتھ تھیں۔ ہماری قریبی دوست نزہت اور زہیر قدوائی کی وجہ سے صبین سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ ہوٹل ہو یا ائرپورٹ کی لابی، صبین کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا ہوا ہوتا تھا اور وہ اپنے کام میں ہر پل مصروف دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ وہ محفل سے بھی ایک پل غافل نہیں ہوتی تھی۔ وہ جس موضوع پر بھی گفتگو ہورہی ہوتی تو پوری سنجیدگی اور توجہ سے بحث میں حصہ بھی لیتی تھی۔ صبین کو میں نے پہلی ملاقات میں ہی ایسا پایا کہ وہ اختلاف رائے کو پورے حق سے استعمال کرتی تھی اور اس میں وہ سامنے والی کی حیثیت یا عمر نہیں بلکہ اس کا پوائنٹ آف ویو دیکھ کر اختلاف کرتی تھیں۔ لیکن اس اختلاف کو کبھی ذاتی دشمنی کا رخ نہیں دیتی تھیں۔ اور محفل میں جہا ں اس نے یہ دیکھا کہ اب بات بے ربط یا ادہر ادہر جارہی ہے تو اس کا پورا دھیان اپنے کام پر چلا جاتا تھا۔ وہ ہمیشہ سے وقت کی اور واعدے کی پابند رہیں۔ وومن ایکشن فورم کا سالانہ کنونشن تھا۔ جس میں لاہوراور اسلام آباد چیپٹر سے بھی وومن ایکشن کی میمبرز آئی ہوئی تھیں۔ غالبأ اس وقت حیدرآباد چیپٹر - نہیں بنا تھا
یہ گیارہ سال پہلے کی بات ہے
اور یہ میٹنگ نزہت قدوائی کے گھر میں ہی منعقد ہوٴی تھی
میٹنگ کے بعدنزہت نے ہمیں کہا کہ اب ہم ٹی ٹو ایف جائینگے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ ۔۔تو نزہت جو کہ دن بھر وومن ایکشن فورم کی میٹنگ میں بحث اور باتیں کرتے کرتے تھک چکی تھی۔ بولیں کہ ارے بھئی صبین نے ایک گوشہ بنایا ہے۔ زہیر بھی اس کے ساتھ ہیں۔ ہم نے پوچھا مگر وہاں ہوتا کیا ہے؟ نزہت مسکراتے ہوئے بولیں۔۔ جو شہر بھر میں کہیں نہیں ہوسکتا، وہ وہاں ہوگا۔ ہم تجسس سے سب سن رہے تھے۔ اور پھر ہم سب ایک گروپ کے صورت وہاں گئے۔ ابڑو بھی سونہاں اور سہائی کے ساتھ وہاں پہنچ چکے تھے۔ اس دن اس ادارے کا افتتاح ہورہا تھا۔اور یہ 2007 سال تھا۔۔اور مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کس آرٹسٹ کے ساتھ بات چیت بھی تھی۔ چھوٹا سا ہال تھا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جس میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اور پھر اس دن سے وہ ادارہ ہماری ذات کا لازمی جز بن گیا۔ ہم وومن ایکشن فورم کے یا ہیومن رائٹس کے پلیٹ فارم پر بھی اکثر یہ بحث کرتے ہیں کہ نوجوان ہمارے ساتھ کیوں نہیں اور ہمارے اس سوال کیوں؟ کا جواب ہمیں سبین کی جدوجہد سے مل گیا۔ جہاں پرانے اور سینئر ایکٹوسٹ کی پہنچ نہیں تھی وہاں صبین نے جھنڈا گاڑ دیا۔ یہ چھوٹا سا ادارہ جو بہت کامیابی سے چل رہا تھا اور ہم ذاتی طور پر جانتے تھے کہ کتنی مشکل سے یہ چل رہا ہے۔ کئی بار ایسے موڑ آئے جہاں صبین کو بھی نہیں پتا تھا کہ آگے کیا ہونا ہے۔ کئی بار ہم نے ایسے موڑ پر گھبرا کر سبین سے پوچھا بھی تھا کہ اب کیا کروگی صبین؟ آنکھوں میں سینکڑوں اندیشے لیکن ایک ہی پل میں ہمت سے آنکھیں بھری ہوئیں اور ایک بھرپور مسکراہٹ سے کے ساتھ صبین کا جواب ہوتا تھا’کچھ نہ کچھ تو کرینگے‘۔
یہ خوبصورت بیٹھک۔ جہاں بیٹھ کر لوگ سکون کی گھڑیاں گذارتے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے تھے کہ انہیں سکون کی یہ گھڑیاں دینے والی صبین اس ادارے کو قائم رکھنے کے لئے بہت بے سکون ہوجایا کرتی تھی۔ اور پھر جس عمارت میں یہ پہلے قائم ہوا تھا وہ کرایے کی جگہ تھی۔۔ جو کہ خالی کروائی گئی۔ وہ سیکنڈ فلور تھا جس کی وجہ سے اس کا نام بھی سیکنڈ فلور رکھا گیا تھا۔ ایک بار میں اس عمارت کے نیچھے کھڑی ہوکر صبین کو فون کرنے لگی کہ صبین میں عمارت کے پاس کھڑی ہوں مگر کون سے فلو ر پر ہے، تب صبین ہنس پڑی اور کہا کہ جب اس کا نام ہی سیکنڈفلور ہے تو ظاہر کہ سیکنڈ فلور پر ہوگا۔ یہ سن کر میں شرمندہ ہوگئی۔ اس کے بعد سیکنڈ فلور وہاں منتقل ہوگیا ۔۔جہاں اب تک وہ موجود ہے۔ صبین کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے ایک بھلے آدمی نے یہ موجودہ جگہ اس ادارے کو بطور تحفے میں دی تھی۔ اور اس پوری جگہ کا کرایہ وہ آدمی ماہانہ ایک روپیہ وصول کرتا تھا۔ اس شخص نے اپنا نام ہمیشہ راز میں رکھنا چاہا۔جگہ مل جانے کے بعد بھی اس جگہ کو آباد رکھنا۔ ایکٹویٹیز کرنا۔ ایونٹس کرنا۔ جہاں اتنی سارے ائرکنڈیشنر چل رہے ہوں اور اتنا سارا اسٹاف بھی موجود ہو۔ ریسٹورنٹ کا اسٹاف۔ صفائی کرنے والا اسٹاف۔۔ ایونٹس کا کام کرنے والا اسٹاف ان سب کی تنخواہیں۔ مقررہ وقت پر دینا بہت بڑی ذمیداری تھی۔ شہر میں کمرشل بنیاد پر بہت سارے پرسکون اور آرٹسٹک کافی ہاؤس اور کیفے، ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ یا دیکھتے ہی دیکھتے کھل گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی کیا وجہ تھی کہ شہر میں ٹی ٹو ایف جیسا کوئی نہیں تھا۔ اس لئے کہ صبین جیسا دل اور دماغ بھی کہیں اور نہیں تھا۔ صبین نے نوجوانوں پر ایسا کیا منتر پڑھ کر پھونک دیا تھا کہ یہ نسل جس کی دنیا فیس بوک ٹوئٹر اور سیل فون پر ایس ایم ایس تک ہی محدود ہے۔ ان کی جدوجہد بھی ان ہی ذرائع سے شروع ہوکر ان ہی پر ختم کیسے ختم ہوتی ہے۔ صبین جو خود بھی آئی ٹی سے تعلق رکھتی تھی۔ کیسے اس نے نوجوانوں کے ذہن تک رسائی حاصل کی۔۔
یہ ہمارے معاشرے میں ماضی کا قصہ ضرور ہے جب شہر میں ایسے کلبز اور ہوٹل موجود تھے جہاں آرٹ پنپتا تھا۔ آرٹ کی فیلڈ سے تعلق رکھنے والے یہاں ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ ان کا ایک دوسرے سے رابطہ، صحتمند بحث آرٹ کے لئے دلوں میں اتساہ پیدا کرتی تھی۔ لیکن وہ وقت بیت چکا تھا اور بیتے ہوئے وقت کو واپس لانا ممکن نہیں تھا۔ اور پھر ایسا وقت کون واپس لاسکتا جس دور میں سڑکوں پر ٹریفک جام نہیں ہوتی تھی۔ ٹیلی ویزن بہت کم گھروں میں تھا۔ موبائل اور سمارٹ فون لیپ ٹاپ عام نہیں تھے۔ یا تھے ہی نہیں۔ اس دور میں محفلوں کا رواج تھا۔ دیہاتوں میں بھی شہروں میں بھی۔ مگر آج کے دؤر میں جہاں نوجوان نسل اپنے ہی گھر میں اپنے پیرنٹس اور بہن بھائیوں سے بھی فیس بوک پر یا ایس ایم ایس میں بات کرتے ہیں۔۔ انہیں ایک دوسرے سے ملا کر منظم طور پر ایک ساتھ جوڑنے کا خواب دیکھنا بھی ایک طرح ناممکن تھا۔ اس چھوٹے سے ادارے میں صبین نے کچھ ایسی پلاننگ کی کہ ہر عمر اور ہر سوچ کے لوگوں کو وہاں اپنے لئے دلچسپی نظر آنے لگی۔
میری بیٹی سہائی جو کہ اپنے اندر بے پناہ ٹیلنٹ رکھتی ہے۔ اپنی بساط کے مطابق ابڑو اور میں نے والدین کی حیثیت سے جو کچھ اس کے لئے کرسکتے تھے وہ کیا۔ اس سے آگے ہمارا بس نہیں چلتا تھا۔ کیونکہ اس سے آگے کی دنیا ہمیں بھی نہیں معلوم تھی۔ ایسا ایک وقت آیا ہماری بیٹی پر، جب اصولوں کی خاطر اسے اپنے استاد سے بھی اختلاف کرنا پڑا۔ جب کہ اس کے احترام میں اس کا سر ہمیشہ جھکا رہے گا۔ تب سہائی بہت اکیلی پڑگئی۔ کیونکہ فن اس کی سانس کی طرح ہے۔ کوئی سانس لینا کیسے چھوڑسکتا ہے اور اس ڈپریشن کی حالت میں وہ ٹی ٹو ایف جاتی رہی۔ جہاں زہیر اور صبین تھے۔ دونوں نے سہائی کو بتایا کہ وقت کی گردش کبھی نہیں رکتی۔ سہائی وہاں جاکر بیٹھنے لگی۔ تو اس ادارے میں کچھ اور بھی اس کی ہم عمر اور ہم مزاج لوگ وہاں آتے تھے۔ ایک دوسرے سے واقفیت ہوئی۔ بات چیت ہوئی۔۔ اور سہائی کی ملاقات وہاں پر دانش سے ہوئی جو پیانو بجاتے تھے۔ اس کے پیانو پر سہائی نے رقص کیا۔ اور اس کے لئے صبین نے ان کو ریہرسل کے لئے اور پرفارمنس کے لئے جگہ دیدی۔ اس کے بعد رجب اور احسن باری بھی وہیں اسے ملے۔ جن کے ساتھ اس نے رقص کیا۔ وہاں پرفارمننس ہوئی جس میں بہت سارے لوگ شریک ہوئے۔ احسن باری کے ساتھ اس نے نرت تال گروپ بھی بنایا۔ سارہ حیدر جو کہ بہت خوبصورت آواز کی مالک ہے۔ سہائی اور اس نے مل کر فیض احمد فیض کی نظموں پرفارمنس دی۔ صرف سہائی کو ہی نہیں کئی نوجوانوں کو اس پلیٹ فارم سے اپنی شناخت بنانے کا موقعہ ملا۔ سہائی نے ا س ادارے میں کلاسیکل ڈانس بھی سکھائی اور یوگا کی کلاسز بھی لیں۔ میں نے ایک بار سہائی کے سامنے یہ ذکر کیا تھا کہ ہمارے بہت پیارے اور عظیم شاعر شیخ ایاز نے میری شاعری مجموعے کے دیباچے میں بھی یہ بات لکھی تھی۔ لیکن انہوں نے یہ بات مجھے کہی بھی تھی۔ شیخ ایاز نے کہا تھا کہً عطیہ تمہاری نظمیں اپنے موضوع کے حساب سے بہت طاقتور ہیں۔ لیکن کاش کہ یہ پابند شاعری ہوتی۔۔ اور ان میں ردم ہوتا تو پھر تمہاری شاعری پر موسیقار کام کرتے۔ وہ گائی جاتیں اور میری شاعری کی طرح سے تمہاری شاعری پربھی کلاسیکل رقص کیا جاسکتا۔ مگر افسوس ایسا نہیں ہوسکتاً۔ شیخ ایاز کے سامنے میری حیثیت تنکے جتنی بھی نہیں۔ مگر پھر بھی میں نے ان سے بہت اعتماد سے یہ کہا تھا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر میری شاعری میں اتنا دم ہے تو پھر اس کو موسیقار گلوکار اور رقص کرنے والے بھی مل جائینگے۔ کیونکہ نثری نظم کی طرح سے آرٹ کے ہر شعبے میں بھی جدت آنی ہوگی۔ اور وہ آئے گی۔ً اور پھر سہائی ابڑو نے یہ بات سچ کردکھائی۔۔ وہ میری نظموں پر رقص کرنا چاہتی تھیں۔ فیمنسٹ سوچ کو ٹربیوٹ پیش کرنا چاہتی تھیں۔ مگر اس کے لئے اس کو ٹیم کی تلاش تھی۔ اس کے پاس سوائے اپنے فن اور جذبے کے باقی کچھ نہیں تھا۔۔سہائی کو ٹی ٹو ایف میں ہی اپنے ہم خیال ساتھی ملے۔ سہائی نے ان سے اپنی خواہش کا اظہار میری دوست نزہت قدوائی سے کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ بات ممی سے چھپانی ہے اور نزہت نے اس کو ہمت دلائی۔کہ اگر تم دل میں ٹھان لوگی تو پھر سب ممکن ہوجائے گا۔ شاعری کے چناؤ میں نزہت نے ان کی مدد کی ۔ اور پھر سہائی کی جدوجہد مختلف سمتوں میں شروع ہوگئی۔ احسن باری جو کہ ناپا کے گریجوئٹ ہیں۔ اور اس وقت تک موسیقی کمپوز کرنے میں اپنا نام بھی پیدا کرچکے تھے۔ سہائی نے اس کو اپنی خواہش سنائی اور کہا کہ میرے پاس دینے کے پیسے نہیں ہیں۔۔ احسن راضی ہوگیا ہے۔ اس کے بعد سارہ حیدر نے اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ اس گروپ میں(جدوجہد ) میں شامل ہوئی۔ احسن کی پوری ٹیم تھی۔ ٹی وی اور تھیئٹر کی مشہور اداکارہ ایمن طارق نے میری شاعری کو تحت اللفظ میں پڑھا۔۔ سارہ حیدر اور احسن طارق نے الاپ دئیے اور اس گروپ میں ایک نوجوان لڑکی سارہ نثار بھی شامل تھی۔ سارہ کا تعلق ایسی فیملی سے ہے جس میں اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا مقصد اچھے رشتے کا حصول سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن سارہ نثار سے بھی اس تمام گروپ کی ملاقات ٹی ٹو ایف میں ہی ہوئی۔ سارہ نثار نے میری شاعری پر ہونے والے پروگرام کو پرڈیوس کیا تھا۔جو کچھ بھی اسٹیج پر چاہیے تھا وہ سب مہیا کرنا سارہ نثار کا کام تھا۔ سہائی ابڑو نے رقص کیا اور تمام کوریو گرافی بھی سہائی نے خود کی اور اسے ’اڑان سے پہلے ‘ کے نام سے پیش کیا۔ یہ ایک گھنٹے کا پروگرام تھا۔۔ جس کی زیادہ تر ریہرسل ٹی ٹو ایف میں اور کبھی ہمارے گھر پر بھی ہوتی رہیں۔ مگر مجھ سے ہر چیز کو خفیہ رکھا گیا تاکہ سرپرائز قائم رہے۔ جب میں پہلی بار ٹی ٹو ایف میں یہ پروگرام دیکھ رہی تھی۔ تو خوشی سے زیادہ مجھے حیرت ہورہی تھی۔ میری ایک نظم کی لائن تھی، شعور کے درخت سے سوچ کا پھل تم بھی کھالو۔ سارہ نثار کہیں سے ایک اچھا خاصا پیڑ بھی اٹھا لائی تھی۔ پروگرام سے میں کچھ دیر پہلے ہی پہنچی تھی اور میں نے سارہ سے پوچھا یہ کون اٹھا لایا ہے تو سارہ نے بتا یا کہ بہت ساری پودوں کی نرسریز میں تلاش کرنے کے بعد اسے کہیں سے یہ مل ہی گیا۔ اور وہ اس کو رکشا میں اٹھا کر لائی ہے۔ ان نوجوانوں کا جوش جذبہ اور طاقت میری ہمت بڑھارہے تھے۔ یہ نوجوان یہاں مختلف قسم کے پروگرام کیا کرتے تھے۔ کبھی گٹار پر کبھی پیانو تو کبھی مشرقی ساز کبھی مغربی ساز۔ کبھی قوالی۔ کبھی کلاسیکل ڈانس تو کبھی کنٹیمپریری ڈانس ہر طرح سے ان کے پروگرام تخلیق سے بھرپور ہوا کرتے تھے۔ صبین کا ساتھ ان کے ساتھ غیر مشروط ہوتا تھا۔ اگر وہ اس ہال کی فیس دے سکتے تھے تو دیتے تھے نہیں دے سکتے تھے تو نہیں دیتے تھے۔ ایسے میں ٹی ٹو ایف کے ساتھ چندے کے لئے ایک بکسہ رکھتے تھے۔۔ اور قریبی ساتھیوں سے کہا جاتا تھا کہ اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ چلتا رہے تو اس میں اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی ڈال دیجئے۔ صبین نے نوجوانوں کو اپنی مدد آپ کرنا سکھایا۔غربت اور کنگالی کے دؤر میں بھی اپنے فن کو زندہ رکھنا سکھایا۔ یہاں ایک ریسٹورنٹ بھی ہے ۔جہاں جس کی مرضی چائے کافی پیے یا نہیں پئے ایسے ہی گھنٹوں بیٹھا رہے۔ دوستوں سے گپیں مارتا رہے۔ نوجوان نسل کی ملاقاتیں جو پہلے شناسائی اور پھر دوستی میں تبدیل ہوئیں ان کا آغاز اکثر یہیں سے ہوا۔ میں نے بھی اکثر وہاں کا رخ تب تب کیا جب مجھ پر تخلیق کے دروازے عارضی دور پر بند ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔ ایسا ہر تخلق کار کی زندگی میں کبھی نہ کبھی وقت آتا ہے کہ اس سے کچھ لکھا نہیں جاتا۔ سوچا نہیں جاتا۔ جب مجھ پر بھی ایسا وقت آیا تھا تو میری دونوں بیٹیوں نے کہا کہ آپ اپنا لیپ ٹاپ اٹھائیں اور ٹی ٹو ایف چلی جائیں۔ اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔ ٹی ٹو ایف کا ایک ان لکھا ان کہا دستور بھی ہے۔۔ وہاں اگر آپ اکیلے بیٹھ کر کچھ سوچ رہے ہوں لکھ رہے ہوں۔ تو ہر طرف شناسا لوگ موجود ہوتے ہوئے بھی کوئی بھی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔ جب تک آپ خود آنکھ اٹھا کر کسی کی طرف نہ دیکھیں یا بات کرنے کی رضامندی نہ دکھائیں کوئی بھی آپ کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔
ہماری بڑی بیٹی سونہاں جس کو مطالعے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اتنی ذہنی طور پر میچوئر ہوگئی کہ اس کو دوست بنانے میں مشکل ہوتی تھی۔ اسے اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ کمرشل ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے لئے بھی ٹی ٹو ایف ایسی پنا ہ تھا جہاں اس کو ذہنی سکون ملتا تھا۔ اس نے بھی اس ادارے میں اپنے دوست بنائے۔ جب وہ انگلنڈ میں پڑھا کرتی تھی اور چھٹیوں میں یہاں آتی تھی تو اس نے ٹی ٹو ایف میں انٹرن شپ کی۔ اور ان کی ریسٹورنٹ میں ویٹریس (بیرے) کی جاب کی۔۔ یہ صبین ہی تھی جو کہ نوجوانوں کو عملی جدوجہد سے جوڑے رکھا کہ بے کار ٹائیم ضایع کرنے کے بجائے کچھ نہ کچھ عملی طور پر کرو۔ اور پھر یہ صبین کی ہی مورلٹیز تھیں کہ میں نے ایک بار سونہا ں سے کہا کہ مجھے ان کے سینڈوچز کی ترکیب تو بتاؤ۔ سونہاں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر اخلاقی بات ہے۔ یہ ریسٹورنٹ کے راز ہوتے ہیں جو میں بتا نہیں سکتی۔ مگر بنا کر کھلاسکتی ہوں۔ سونہاں کو بھی اس پلیٹ فارم پر اپنے جیسا ہی ایک پڑھاکو کتابوں کا کیڑہ ٹائپ دوست اسد علوی ملا اور پھر اس انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ٹی ٹو ایف میں پروگرام بھی ترتیب دئیے۔ حال ہی میں سعادت حسن منٹو پر بھی سونہاں اور اسد نے اپنی تنظیم کی طرف سے پروگرام کیا تھا۔ ٹی ٹو ایف کے شروعاتی دؤر میں ایک نشست ابڑو اور میرے ساتھ اکٹھی رکھی گئی تھی۔ مجھے شاعری پڑھنی تھی اور ساتھ میں ابڑو کی تصویروں کی نمائش بھی رکھی گئی تھی۔ میرے ساتھ کئی بار یہ شاعری کی نشست رکھی گئیں اور میں نے اپنی شاعری سنائی۔۔ اور سینکڑوں ایسی محفلوں میں شرکت کی جو ہمارے ہم خیال دوستوں کے ساتھ کی گئیں ۔اور یہاں ہمارے نئے دوست بھی بنے۔ اور اپنے پرانے دوستوں سے بھی ہر بار یہیں ملاقات ہوتی رہی۔
صبین کے لئے ایک سندھی اخبار میں لکھا گیا کہ وہ اپر کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ ڈفینس میں رہنے والا ہر آدمی اپر کلاس کا نہیں ہوا کرتا۔ صبین کی ماں مہناز بنیادی طور پر استاد ہیں اور ٹیچر ریسورس سینٹر میں جاب کرتی ہیں۔ وہ اپنی فیلڈمیں بہت کمیٹڈ سرگرم اور ماہر ہیں۔۔صبین اتنی باہمت کیسے ہوسکتی ہے؟ جن کے دماغ میں ایسا سوال ہے۔ اگر وہ مہناز عرف می می سے ملے گا تو جواب مل جائے گا کہ صبین ایسی کیسے ہوسکتی ہے۔ می می نہایت باہمت باشعور اور پرجوش انسان ہیں۔ گوکہ ان کی دنیا صرف صبین تھیں۔ اس کی زندگی کا واحد سرمایہ تھی صبین۔ لیکن اسے کھودینے کے بعد بھی ایسی حوصلہ مند انسان میں نے پہلی بار دیکھی جو کہ خود بھی گولی لگنے سے زخمی ہیں۔ جو اس کی میت پر ہمیں ہمت دلاسا دے رہی تھیں۔ ہمیں تسلی دے رہی تھیں۔۔
صبین کو جس جرم میں ماردیا گیا۔ وہ تھا بلوچوں پر ظلم کی داستان پر ان کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے ادارے میں پروگرام کرنا۔ ماما قدیر جن کے ساتھ لمس جیسے ادارے کو بھی پروگرام کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ صبین کو بھی دھمکیا ں ملیں لیکن صبین نے کبھی ظلم کے آگے جھکنا نہیں سیکھا تھا۔ اس لئے وہ پیچھے نہیں ہٹیں۔ اور مجھے ٹی ٹو ایف کے افتتاح کا وہ پہلا دن یاد آگیا ۔۔جب ہماری دوست نزہت قدوائی نے ہمارے اس سوال پر کہ یہاں ہوگا کیا؟ نزہت نے کہا کہ جو شہر میں کہیں نہیں ہوسکتا وہ یہاں ہوگا۔ صبین زہیر قدوائی کی کلیگ اور دوست تھی مگر نزہت کے لئے وہ اپنی بیٹی کی طرح سے تھی۔ اس لئے نزہت نے اس کے بارے میں صحیح اندازہ لگایا تھا۔ صبین کو گولی مارنے والوں کو کیا خبر کہ یہ گولی کتنے سینے چھلنی کر گئیں ہیں۔
صبین جیسی اب ہم لائیں کہاں سے؟
عطیہ داؤد
•••••
REMEMBERED FOREVER
Came into our world: 20th June 1975
Shot for her belief in love: 24th April 2015
Labels: Activism, Apple, Art, Bloggers, Events, Media, News, Pakistan, People, Personal, Poetry, Politics, Twitter, Urdu
1 Comments:
Indeed what a horrible tragedy and great loss this is Zaheer Sahab. Don't really know what to say...
04 June, 2015 11:19
Post a Comment
<< Home